قارئین کرام! دوست اور دوستی یہ ایک ایسا لفظ ہے جس سے شاید ہی کوئی ناواقف ہو، دوست کے لیے عربی میں صدیق اور اصدقاء کا لفظ استعمال کیا Friend , Friendship جاتاہے، جب کہ انگلش میں
کا لفظ استعمال کیا جاتاہے، عربی میں صدق کا معنی ہے سچائی، اسی لفظ سے صدیق ماخود ہے، عربی کے اعتبار سے دوست کی تعریف، ایسے ہم مزاج اور ہم عمر لوگ جو کہ سچائی کی مناسبت سے ایک دوسرے سے منسلک ہوں دوست کہتے ہیں، جب کہ انگلش زبان میں دوست کی متعدد تعریف کی گئیں
ہیں مثلا:a person who you know well and who you like a lot, but who is usually not a member of your family ترجمہ:ایک ایسا انسان جو کہ آپ کو بہت ہی اچھے طریقے سے جاننا ہے، اور وہ آپ کو پسند بھی کرتا ہے، لیکن وہ فیملی ممبر نہیں ہے، ایسے شخص کو انگلش زبان میں دوست کہا جاتا ہے، جب کہ دوست کی دوسری تعریف یوں کی گئی ہے: a person with whom one has a bond of mutual affection, typically one exclusive of sexual or family relations
ترجمہ:ایک ایسا شخص جس کے آپس میں باہمی تعلقات ہوں، جو کہ عمومی طور پر جنسی اور خاندانی تعلقات کے علاوہ ہوتے ہیں، ایسے دو شخص کو آپس میں دوست کہا جاتا ہے۔دوست اور دوستی سے متعلق متعدد کتابیں بھی لکھی گئیں ہیں، تاہم اکثر و بیشتر کتابیں ا نگریزی میں لکھی کہیں ہیں، جن میں ایک مشہور کتاب ہے Big Friendship اس کتاب کو دو دوستوں نے مل کر لکھا ہے، جن کا نام:
Aminatou Sow اور Ann Friedman یہ دونوں خاتون ہیں اور خاتون مصنف کے اعتبار سے اس کتاب کو اس فلڈ کی پہلی کتاب بھی کہی جاسکتی ہے۔اس کتاب میں دونوں خاتون دوستوں نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایک اچھا دوست انسان کی زندگی میں کتنی ضرورت ہے، بنیادی طور پر دونوں خاتون نے اپنی اس پوری کتاب میں اس بات پر زور دیا ہے کہ ایک خاتون کے لئے ایک سہیلی ہونا کتنا ضروری ہے، تاہم اس کتاب میں جن چیزوں کی جانب نشان دیہی کی گئی ہے اس کا اطلاق مردوں پر بھی ہوتا ہے، اس بناء پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مذکورہ کتاب مرد و خواتین دونوں کے لیے بالکل یکساں ہے۔
اس موضوع پر لکھی گئی دوسری کتاب ہے
اس کے علاوہ اور بھی متعدد ایسی کتابیں ہیں جس میں دوست اور دوستی سے منسلک کرداروں کی وضاحت کی گئی ہے، تاہم عربی یا دیگر زبانوں میں اس موضوع پر کئی خاص کتاب موجود نہیں ہے،البتہ زیادہ تر کتاب اس موضوع پر امریکہ میں لکھی گئی ہے، جو کہ انگریزی زبان میں دستیاب ہے۔
ہندو دھرم میں دوستی کا تصور
جب مذہبی طور پر دوستی کے مفہوم اور نظریہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور مختلف مذہبی کتابوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کے اکثر و بیشتر مذاہب میں کہیں نہ کہیں دوستی کا تصور موجود ہے، چناں چہ ہندو مذہب میں دوست کو متر کہا جاتا ہے، جو کہ ایک سنسکرت لفظ ہے، جس کا معنیٰ باہمی الفت رکھنے والا ہے، وہیں ہندوؤں کے بھگوانوں میں ایک بھگوان مترا نامی ہیں، جن کا تذکرہ وید میں بھی موجود ہے، کہا جاتا ہے کہ مترا بھگوان یہ در اصل ادیدی دیوی کا بیٹا ہے، جس کا دور 1400قبل مسیح کا ہے،میتائی نوشہ کے مطابق مترا کو معاہدہ کا محافظ دیوتا تصور کیا گیا ہے، جب کہ رگ وید میں بھی مترا کو دیوتا کی خصلت سے متصف کیا گیا ہے، اور اسے سچائی کا سرپرست دیوتا بھی کہا گیا ہے، پرانے وید میں مترا کا تعلق صبح کی روشنی سے منسلک کیا گیا ہے، جب کہ پوسٹ وید میں مترا کو دوستی کا بھگوان کہا گیاہے، کل ملا کر یہ کہ ہندؤں کے مذہبی کتابوں کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ متر یا دوستی کا مفہوم ہندو مذہب کے مطابق معاہدو اقرار کی حفاظت اور نئی امید کا نام ہے، یعنی کہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوؤں کے مطابق دوست ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو کہ ایک دوسرے کے ہر راز کا محافظ ہوتا ہے، اور ایک دوسرے سے ملنے سے نئی امیدیں پیدا ہو جاتی ہے، لوگ اپنے ہم مزاج لوگوں سے مل کر نئے نئے منصوبے بنانے شروع کر دیتے ہیں۔
عیسائی اور یہودی مذاہب میں دوستی کا تصور
اسی طرح سے عیسائی مذہب میں دوست کا تصور موجود ہے، بذات خودبائبل میں بھی دوستی اور دوست سے متعلق متعدد آیات موجود ہیں چناں چہ
بائبل امثال 17:17میں درج ہے ”دوست ہر وقت پیار کرتا ہے اور بھائی مصیبت کے وقت کے لیے پیدا ہوتا ہے“
بائبل امثال27:17”لوہا لوہے کو تیز کرتا ہے، اور ایک آدمی دوسرے آدمی کو تیز کرتاہے“
بائبل امثال 18:24”جس کے بے اعتبار دوست ہوتے ہیں وہ جلد تباہ ہو جاتے ہیں“
بائبل یوحنا 4:11”پیارے دوستوں چونکہ خدا نے مجھ سے اتنی زیادہ محبت کی ہے، ہمیں بھی ایک دوسرے سے محبت کرنا چاہئے
بائبل امثال 27:6”وفادار دوست کے زخم دشمن کے بوسے سے اچھے ہیں“
اسلام میں دوستی کا تصور
بذات خود اسلام میں بھی دوست اوردوستی کا تصور موجود ہے، اور اسلام میں بھی دوستی کو کافی اہمیت دیا گیا ہے، قرآن کریم میں متعدد ایسی آیات موجود ہیں جس میں دوست اور دوستی کا تذکرہ کیا گیاہے،اور دوستوں کے کردار کو واضح کیا گیا ہے، برے دوست اور برے لوگوں کی صحبت سے منع کیا گیاہے، چناں چہ قرآن کریم کی سورہ نساء آیت نمبر 69میں فرمایا گیاہے، ترجمہ:اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرما برداری کرتے ہیں وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جیسے کہ انبیائے کرام، سچے لوگ اور شہدائے کرام و صالحین، اور یہ لوگ بہترین دوست ہیں۔اسی طرح سے قرآن کریم میں سورہ نساء کی آیت نمبر89میں میں فرمایا گیا ہے ترجمہ: ان کی کی تو چاہت ہے کہ جس طرح کے کافر وہ ہیں تم بھی ان کی طرح کفر کرنے لگو اور پھر سب یکساں ہو جائیں، پس جب تک یہ اسلام کی خاطر وطن نہ چھوڑیں ان میں سے کسی کو حقیقی دوست نہ بناؤ۔ان دوآیتوں کے علاوہ قرآن کریم اور بھی متعدد آیتیں ہیں جس میں کسی نہ کسی انداز سے دوستی اور تعلقات کو بیان کیا گیاہے، اور برے دوستوں سے روکا گیا ہے، کہیں کہا گیاہے کہ شیطان کو اپنا دوست نہ بناؤ تو کہیں کہا گیا ہے کہ کفار کو اپنا دوست نہ بناؤ، تو کہیں کہا گیا ہے کہ جو دنیا میں جس کے ساتھ رہے گا آخرت میں بھی اس کا حسر ان ہی کے ساتھ ہوگا۔
احادیث نبوی میں دوستی سے متعلق ارشادات
ان کے متعدد ایسی حدیثیں ہیں جس میں کسی نہ کسی انداز سے دوست، دوستی اور اس کی کیفیت و انداز کو کسی نہ کسی شکل میں بیان کیا گیا ہے، چناں چہ خود بخاری شریف میں 25ایسی جگہیں موجود ہیں جہاں دوست کا تذکرہ کیا گیا ہے۔بخاری کی حدیث نمبر 467میں درج ہے ترجمہ:رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض الوفات میں باہر تشریف لائیں، سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم، ممبر پر بیٹھیں اللہ کی حمد و ثناء کی اور پھر فرمایا، کوئی بھی شخص ایسا نہیں جو کہ ابو بکر بن ابو قحافہ سے زیادہ مجھ پر اپنی جان و مال کے ذریعہ احسان کیا ہو، اور اگر میں کسی انسان کو جانی دوست بنا تا توابو بکر رضی اللہ کو بناتا، لیکن اسلام کا تعلق افضل ہے، دیکھو ابو بکر کی کھڑکی چھوڑ کر مسجد کی تمام کھڑکیاں بند کر دیں جائیں۔
قارئین کرام!اس حدیث سے دو باتیں سمجھ میں آتی ہے، ایک تو ہر ایک انسان دوست بنا سکتا ہے، کیونکہ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے لیے دوست بنانے کی نفی نہیں بلکہ اثبات میں کہا کہ اگر ان کے لیے دوست بنا نا ممکن ہوتا تو وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو جانی دوست بناتے، لیکن چونکہ نبی اپنی امت کے لیے باپ کی حیثیت رکھتا ہے، پھر یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں تو پھر کیسے ممکن ہے کہ کسی اور کو دوست بنایا جائے۔اسی سے ملتی جلتی متعدد حدیثیں بخاری شریک کے علاوہ مسلم شریف اور دیگر کتب احادیث میں موجود ہے۔
ابو داؤد شریف حدیث نمبر5142میں درج ہے، ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ا اور سوال کیا یا نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، کیا میرے ماں باپ کے فوت ہو جانے کے بعد بھی مجھ پر ان کا کوئی حق باقی ہے کہ میں ان کے ساتھ حسن سلوک کرتا رہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! ان کے لیے دعاء کرتے رہنا، ان کے لیے بخشش مانگنا، ان کے عہد کو پورا کرنا، ایسے رشتہ داروں سے میل ملاپ رکھنا، جو ان کے بے غیر نہیں ہو سکتا تھا، اور ان کے دوستوں کی عزت کرنا۔اسی طرح ابو داؤد شریف کی ہی ایک دوسری روایت 4242میں فرمایا گیا ہے کہ بلاشبہ میرے ولی اور دوست صرف متقی لوگ ہیں۔اسی طرح سے ترمیذی شریف میں حدیث نمبر 2378میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، اس لیے تم میں سے ہر ایک شخص کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کس سے دوستی کررہا ہے،
دوستی سے متعلق مختلف مسائل
قارئین کرام! مذکورہ بالا عبارت کو آپ نے پڑھا ہوگا تو اس سے اندازہ ہو گیا ہوگا کہ دوست ایک ایسے تعلقات اور روابط کا نام ہے، جس کے بارے میں تقریبا تقریبا تمام مذہب میں کچھ نہ کچھ تفصیلات موجود ہے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دوستوں کے متعلق سب سے زیادہ تفصیل شریعت اسلامی میں فراہم کیا گیاہے، دوست کیسا ہو، کن لوگوں سے دوستی کرنا چاہئے اور کن لوگوں سے دوستی سے گریز کرنا چاہئے، دوست ایک دوسرے دوست کا وارت ہو سکتا ہے یانہیں، ایک دوست دوسرے دوست کا مال کھا سکتا ہے یا نہیں، ایک دوسرے دوسرے دوست کواپنے مال سے کچھ کھلا سکتا ہے یا نہیں، دوست کے رشتہ داروں سے کس انداز سے پیش آنا چاہئے، ان تمام چیز وں میں اسلام میں پورے طور پر وضاحت کیا ہے، علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ایک دوست دوسرے دوست کا وارث تو نہیں بن سکتاتاہم ایک دوسرے دوسرے دوست کا مال کھا سکتا ہے اور دوسرے دوست کو کھلابھی سکتاہے، یہ دوستی کے حقوق میں شامل ہے، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی ٰ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک باغ غریبوں کے لیے وقف کیاجس کے متولی کو اس باغ سے کھلانے کی اجازت دی گئی اور ساتھ ہی ساتھ اسے یہ بھی اجازت دیا گیا کہمتولی اپنے دوست کو بھی کھلا سکتے ہیں، لیکن دوست جمع نہیں کر سکتا ہے،اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کا جائزہ لینے سے اندا.زہ ہوتا ہے، دوست کے رشتہ دار، ماں باپ اور بھائی بہن بھی اپنے رشتہ دار کی طرح مکرم ہو جاتے ہیں، اس لئے اگر کوئی شخص کسی سے دوستی کا دعویدار ہے تو اسے چاہئے کہ اس کے رشتہ دار اور اس کے ماں باپ کا بھی قدر کرے،جس انداز سے اپنے ماں باپ کے ساتھ پیش آتا ہے بالکل اسی انداز سے اپنے دوست کے ماں باپ کے ساتھ بھی پیش آئے، جو ادب و لحاظ اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں کے لیے بجا لاتا ہے وہی ادب و لحاظ اپنے دوست کے ماں باپ اور رشتہ داروں کے لیے بجا لائے۔
دوست اور دوستی کے اقسام
قارئین کرام! انٹر نٹ جس طرح سے دنیا پر اثرا انداز ہوا اور دنیا کے زاوے کو بالکل بدل کر رکھ دیاہے، اسی طرح سے دوستی کی مفہوم اور مراد میں بھی کئی تبدیلی رونما ں ہو چکی ہیں، موجودہ زمانہ کو دیکھتے ہوئے دوستی کی صنف کو کئی حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، (۱)سوشل میڈیا کی دوستی، (۲)جان پہچان والے لوگ (۳)شریک کار افراد (۴)جگری دوست
آج کل سب سے زدیاہ مشہور سوشل میڈیا کی دوستی ہے، جس کا مقصد اپنے ما فی ضمیر کو عام لوگوں تک پہچاناہے، لیکن کامنٹ، شیئر اور سبسکرائب کے آفسن کی وجہ سے اس کے فیچر میں کچھ اضافہ ہوگیا ہے، اور اب اس سے یہ اندازہ لگانا شروع ہو گیا ہے کہ ہم جو بات کہہ رہے ہیں اس سے کتنے لوگ متفق ہیں، سوشل میڈیا کے اس فیچر کا استعمال کرتے ہوئے کارپورٹس حضرات، اپنی مارکٹنگ پالیسی اور حکمت عملی تیار کرنا شروع کردیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس شوسل میڈیا میں بہت سے مارکٹنگ ٹولس بھی آنے لگے ہیں، گویا کہ سوشل میڈیا اب سوشل میڈیا سے بزنس میڈیا کی جانب مبذول ہونا شروع ہو گیاہے۔لیکن کچھ لوگ شوسل میڈیا کے دوستی کو بھی حقیقی دوستی کا درجہ دیکر اپنا دل ہار بیٹھتے ہیں، جس کے نتیجہ میں کچھ لوگ تو اپنی محبت کو کامیاب بنا پاتے ہیں، جب کہ اکثریت سماج مخالف عناصر کے ہاتھوں چڑھ کر اپنا سب کچھ کھودیتے ہیں۔
جان پہچان والے لوگوں کی دوستی:یہ دوستی کی ایسی صنف ہے جس سے ہر کوئی آشنا ہے، اور ہر کسی کو اپنے جان پہنچان والوں سے سابقہ پڑتا ہے، جان پہنچان والوں میں تمام لوگ شامل ہیں خواہ وہ آپ کے رشتہ دار ہوں یا آپ کے پڑوسی، یا وہ جو آپ کو کسی نہ کسی انداز سے جاننے ہوں، دوستی کی یہ صنف انتہائی درجہ فائدہ مند ہوتا ہے، آپ کے آس پاس اور ارد و گرد رہنے کی وجہ سے آپ کے ہر معاملہ میں معاون ثابت ہوتے ہیں، آپ آسانی سے انہیں اپنے کسی بھی مسئلہ کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، تاہم جلن اور حسد کا مادہ بھی سب سے زیادہ ان ہی قسم کے دوستوں میں ہوتا ہے، وہ آپ کے آس پاس ہونے اور آپ کے معاملہ سے واقف ہونے کی بناء پر، آپ کی اچھائی دیکھ کر جلن حسد کے شکار ہو جاتے ہیں، یہ بھی عجیب بات ہے کہ اس صنف میں جو جتنے قریب ہیں اتناہی زیادہ ان میں حسد و جلن پیدا ہو جاتی ہے۔جس کی واضحی مثال مکیش امبانی اور انیل امبانی ہیں، دو نوں بھائیوں میں مکیش امبانی بڑے تھے،مکیش امبانی کو صرف اور صرف اپنے کام سے مطلب تھا، انہیں ٹائم پر آفس جانا اور پوری دل جمعی سے کام کرنا پسند تھا، جب کہ چھوٹے بھائی انیل امبانی کو شہرت اور واہ واہی زیادہ پسند تھا، وہ سیاسی لیڈران کے آگے پیچھے بہت کرتے تھے، انہوں نے کئی پروجیکٹ صرف نام کے لیے لاگت سے کم میں تیار کیا۔جب دونوں بھائیوں میں اختلاف بڑھا تو ماں نے جائداد دونوں کے درمیان تقسیم کردیا،انیل امبانی تمام سے ملتے جلتے تھے اور تمام لوگوں کو اپنے جانب مبذول کئے ہوئے تھے جس کی بناء پر ماں کا رجحان بھی چھوٹے بیٹے کی جانب تھا، جب کہ بڑے بھائی مکیش امبانی کو صرف اپنے کام سے ہی پیار تھا، وہ آفس گھر اور کام میں ہی لگے ہوئے تھے۔ ماں نے تمام فائدے دینے والے سیکٹر چھوٹے بھائی کو دے دیا گیا، کچھ ہی دنوں میں انیل امبانی ہندستان کے سب سے امیر انسان بن کر سامنے آئے اور اس کے بعد پھر ان کا ڈاؤن فال شروع ہو گیا۔مکیش امبانی اپنے جد و جہد سے کئی نئی کمپنی کی شروعات کی ااور پھر یہ بھی ہندستان کے نمبر امیر بن کر ابھر ے اور ابھی بھی ٹاپ ٹن میں برقرار ہیں۔اس صنف کی سب سے اہم اور خاص بات ہے کہ ہمیشہ زیادہ چھوٹے کی جانب سے ہی شروع ہوتی ہے، جب کہ بڑے کی جانب سے نظر اندازی کا معاملہ رہتا ہے، اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ آخری جیت بڑے کی ہی ہوتی ہے۔لیکن دوستی کی یہی صنف اگر اپنے اپنے ذمہ داری کو سمجھے اور وسیع ذہن کا مظاہرہ کرے تو دنیا بدل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس کی واضح مثال کوٹک مہندرا بینک کے بانی کا ہے، جب انہوں نے بینک شروع کرنا چاہا تو انہیں سخت مالی پریشانی کا سامنا تھا، جس کا تذکرہ انہوں نے اپنے رشتہ داروں سے کیا، رشتہ داروں نے ان کی بزنس میں پیسہ لگانے کی ہامی بڑھی، اور آج جن لوگوں نے اس میں صرف ایک لاکھ روپئے لگائے تھے وہ ارب پتی ہے اور کوٹک مہندرا بینک ہندستان کا چوتھا بڑا بینک ہے۔
شریک کار افراد کی دوستی:اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو کہ کسی نہ کسی واسطے سے آپ سے بزنس یا تجارت سے وابستہ ہوں، خواہ ایک بزنس مین کا تعلق دوسرے بزنس مین سے ہو، یا ایک کمپنی کا تعلق اپنے ورکر سے ہو، دوستی کا یہ نام بزنس ولڈ کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے، تجارتی وابستگی کی بناء پر ایک دوسرے سے بالکل ایسے قریب ہو جاتے ہیں جیسے کہ اپنے سگے ہوں، بلکہ میں نے تو بعض بزنس مین کو اپنے سگے پر بھی ترجیح دیتے ہوئے دیکھا ہوں، رقابت تو اس میں بھی پایا جاتا ہے مگر وہ دوسری قسم کیہ بہ نسبت کم متاثر ہو تے ہیں، جس کی بناء پر ہر کوئی اس رقابت پر قابو پالیتا ہے، چونکہ اس قسم میں ایک طرف رقیب ہوتے ہیں تو دوسری طرف معاون کی بھی کثرت ہوتی ہے، انسان تھوڑی سے تدبیر سے اس پر قابو پالیتاہے۔اس صنف میں سب سے اہم تعلق مالک اور ملازم کا تصور کیا جاتا ہے، اور اس پر تو کئی کتابیں بھی لکھی جا چکی ہیں۔مالک اور ملازمین یہ دونوں در اصل ٹیم منجمنٹ کا اہم حصہ ہو تا ہے، اس بنا ء پر بزنس سے متعلق ہر کورس میں اس پر توجہ ضرور دی جاتی ہے، اور ٹیم منجمنٹ سے متعلق پڑھائی کی جاتی ہے۔
جگری دوست:دوست اور دوستی سے متعلق جتنی بھی قسم کی باتیں یا کہاوتیں کی جاتی ہیں وہ اسی قسم کی صنف کے لیے کی جاتی ہیں، عمومی طور پر دوست، فرینڈ یا صدیق کے مراد اسی قسم کے لوگ ہو تے ہیں، مذکورہ بالا تعریف کے مطابق ایسے دو قسم کے لوگ جن کے نظریات، افکار و خیالات اور سوچنے و سمجھنے کا انداز بالکل ایک جیسا ہو جب ایسے لوگ آپس میں مل جاتے ہیں، اور کسی ایک عمل میں پابند عہد ہو جاتے ہیں تو انہیں دوست کا نام دیا جاتا ہے،جو کہ ہر قسم کی رشتہ داری اور بندھن سے پاک ہو کر محض افکار میں یکسانیت کی وجہ سے ایک دوسرے کے قریب تر ہو جاتے ہیں، تاریخ میں بہت سے ایسے واقعات درج ہیں، کہ ایک دوست نے دوسرے دوست کے لیے جان کی بازی بھی ہا ری ہے، ترکی زبان کا ایک مقولہ ہے جس میں کہا گیا ہے، جس انسان کا کوئی اچھا دوست نہیں، وہ انسان قابل اعتبار نہیں، اور یہ بھی بالکل طے شدہ بات ہے کہ جگری دوست کسی انسان ایک دو ہی ہو سکتا ہے،اگر کوئی شخص پورے ایک گروپ سے تعلقبنا تا ہے اور اسے جگری دوست یا دوستی کا نام دیتا ہے، تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ شخص جھوٹا اور مفاد پرست ہے۔جیسا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ بالا روایت کی دلالت النص سے معلوم ہوتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد جانثار ساتھی ہیں، جن کے متعلق بہت سے مناقب آپ صلی اللہ وسلم سے مروی ہے، تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوست کا لفظ صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ہی استعمال کیا۔
کن لوگوں سے دوستی نہ کرنا چاہئے اور کن لوگوں سے دوستی کرنا چاہئے؟
کن لوگوں سے دوستی نہ کرنا چاہئے یہ بھی بالکل واضح ہے، اور ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ وہ لوگ جن کے عادات و اطوار میں کج روی ہو، ایسے لوگوں سے بالکل دور رہنا چاہئے، مشکواۃ شریف کے باب کتاب الایمان میں ایک حدیث درج ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو کفار سے دوستی کرنے سے منع فرمایا اور کہا جو شخص جس کے ساتھ دنیا میں رہتا ہے اس کا حسر بھی اسی کے ساتھ ہوگا،آیات قرانیہ اور احادیث کریمہ میں جن لوگوں سے دوستی کرنے سے منع کیا گیا ہے، وہ مجموعی طور پر کفار و مشرکین، منافقین اور شیاطین ہیں، عمومی طور پر ان لوگوں میں جو خصلتیں پائی جاتی ہیں، وہ شریک ہے، بت پرستی ہے، جھوٹ ہے، دھوکا دیہی ہے، مکاری ہے، زنا ہے، اور شراب نوشی جیسی بڑائیاں شامل ہیں۔پس کسی بھی شخص کے اندر مذکورہ بالا خرابیاں پائی جاتی ہیں تو اس سے دوری اختیار کرنا نہ صرف پسندیدہ ہے بلکہ باعث ثواب بھی ہے۔ہر وہ شخص جس کے اندر مذکورہ بالا خرابیاں نہ پائی جاتیں ہوں اور وہ آپ کا ہم مزاج بھی ہے تو ایسے افراد سے دوستی کرنا چاہئے، بلکہ ایسے ہم مزاج افراد سے خود بخود دوستی ہو جاتی ہے۔
دوست اور بھائی میں فرق
دوست اور بھائی دونوں کو اپنی جگہ مستقل حیثیت حاصل ہے، تاہم دوست کے بارے میں یہ بات تو بالکل یقینی ہے کہ دوست کا رتبہ ہمیشہ ماں باپ سے کم ہوتا ہے، اور ماں باپ کی بات پر کبھی دوستوں کو ترجیح نہیں دینا چاہئے، جیسا کہ احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قربقیامت لوگ اپنے ماں باپ سے زیادہ دوست کو ترجیح دیں گے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر سخت وعید بھی فرمائی ہے۔ وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ بھائی کا رتبہ بھی ماں باپ سے کم تر ہے، لیکن دوست اور بھائی میں فوقیت کس کو حاصل ہے، اور کس کی بات کو ترجیح دینا چاہئے، اس کے بارے میں کہیں کوئی تفصیل نا چیز کو تادم تحریر نہیں مل پائی ہے۔تاہم یہ کہا جاسکتا ہے کہ دوست اور بھائی کی باتوں میں کب کس کو ترجیح دی جانی چاہئے یہ معاملہ صاحب رائے پر چھوڑ دیا گیا ہے۔اگر کوئی ایسا مسئلہ ہو جس پر کسی کے کال پر بھی عمل کرنے سے شریعت کی مخالف لازم نہیں آتی ہے تو صاحب رائے کو اختیار ہے، وقت اور حالات کے اعتبار سے جس کی بات کو چاہئے ترجیح دے۔
البتہایک مقولہ مشہور ہے جسے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جانب منسوب کیا جاتا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ حضرت علی سے سوال کیا گیا کہ بھائی اور دوست میں کیا فرق ہے، تو اس پر انہوں نے کہا کہ بھائی سونا ہے اور دوست ہیرا ہے۔یعنی کہ بھائی سے اگر معاملہ پگڑ جائے تو اسے سونا کی طرح پگھلا کر پھر سے درست کیا جا سکتا ہے، لیکن دوسری جانب دوست ہیرا کی طرح ہوتا ہے بہت ہی قیمتی مگر ٹوٹنے کے بعد اپنی قیمت کھو دیتا ہے۔
دوست کہلانے کے حقیقی مصداق
قارئین کرام مذکو بالا تفصیل سے آپ کو یہ اندازہو ہو گیاہوگا کہ سماج میں دوست اور رفیق کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے، جو کہ نہ صرف سماجی ہے بلکہ مذہبی رو سے بھی کافی اہم مانا جاتا ہے، خود حضرت ابراھیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے خلیل اللہ کا لقب دیا، یعنی کہ اللہ کا دوست، اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ حقیقی معنوں میں دوست کے مصداق کون لوگ ہیں اورکسے دوست کہا جاسکتا ہے، تو اس کا اندازہ آپ کو دوستی کی تعریف سے ہو گیا ہوگا کہ دوست کا باہم فطرتی طور پر ہم مزاج ہونا ضروری ہے، کہیں مزاج میں فرق ہو اور اس کے باوجود اگر کوئی دوستی کا دعوی ٰ کرتا ہے تو اس سے جھوٹا یا مطلب پرست ہی کہا جاسکتا ہے، اسی طرح ہم مزاج ہونے کے علاوہ بے لوس اور مخلص ہونا ضروری ہے، بہت سے لوگ وقتی طور پر ہم مزاج ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اور اپنے مطلب پورا ہونے تک ایسا ظاہر کر تے ہیں کہ وہ ان کے مخلص دوست ہیں، لیکن موقع ملتے ہی ڈسنا شروع کر دیتے ہیں، بہت سے لوگ دوستی کا اس بنا پر دم بھرا کرتے ہیں تاکہ مد مقابل کی کمی ان کے سامنے آسکے اور وقت پڑنے پر اسے زیر کیا جاسکے۔ایسے لوگ بھی دوستی کے مصداق کبھی نہیں ہو سکتے۔جو مخلص ہوگا اور محض نظریاتی ہم آہنگی کی بناء پر آپ ساتھ رہے گا، وہ کبھی بھی آپ کے کسی بھی چیز میں دلچسپی نہیں لے گا۔اس لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ اچھے انسان کو پہنچانے اور اچھے لوگوں کے ساتھ دوستی کریں۔