قارئین کرام!گذشتہ سات ماہ سے فلسطین اور اسرائیل کی جنگ جاری ہے، جس میں تقریبا ایک لاکھ لوگ ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں، ایک طرف تو اسرائیلی فوج کو ذلت آمیز شکست کا سامنا ہے، تو دوسری طرف اسرائیلی فوج نے نہتے اور معصوم عوام پر ظلم و جبر کا وہ پہاڑ ڈھارہا ہے، جو کہ ہٹلر و قت کو بھی شرمادے۔اسی طرح ایک طرف امریکی حکومت اسرائیل کی بھر پور پشت پناہی کررہی ہے، تودوسری طرف امریکی عوام سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں، یورپ میں بھی یہی معاملہ ہے، عوام سڑکوں پر ہیں اور فلسطین کی حمایت میں نعرے لگا رہے ہیں، اور حکومت خاموشی سے اسرائیل کا ساتھ دے رہی ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے، عوام اور حکومت بالکل دو الگ الگ سمت میں کیوں ہے؟،اور امریکی انتظامیہ دوغلہ پنی کا پالیسی کیوں اختیارکر رہی ہے۔
قارئین کرام! اس پورے حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہمیں آج سے تقریبا تین ہزار سال یا اس سے بھی زیادہ پرانی تاریخ کا جائزہ لینا ہوگا، حضرت ابراھیم علیہ السلام کے دو صاحب زادے ہیں، ایک حضرت اسحاق علیہ السلام اور دوسرے حضرت اسماعیل علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام کے خاندان میں مسلسل بنی آتے رہے، یہاں تک حضرت موسی اور حضرت عیسی علیھم السلام یہ دونوں بنی بھی حضرت اسحاق علیہ السلام کے ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں،یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اور عیسیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت ہیں، تاریخی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جنہیں انگلش میں Prophet Mosesکے نام سے ناجا جاتا ہے، جن کے ماننے والے فی الوقت یہودی، یا Jewsہیں، ق م 1393میں پیدا ہوئے ہیں اور 120سال کی عمر میں وفات پائی، یہودی تاریخ کے مطابق یہودیوں میں 48نبی اور 7نبیہ تشریف لائیں۔جب کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام (Jesus)جن کی پیدائش ق م 4-6میں ہوئی ان کے ماننے والوں کو فی الوقت عیسائی کہتے ہیں،
حضرت ابراھیم علیہ السلام کے دوسرے صاحب زادے حضرت اسماعیل علیہ السلام ان کے خاندان میں صرف ایک نبی آئے اور وہ نئی آخرالزماں صلی اللہ ہیں۔حضرت موسی علیہ السلام کی کتاب توریت یعنی کہ یہودی کی مذہبی کتاب بائبل پورانا، اور حضرت عیسی علیہ السلام کی کتاب انجیل بائبل نیا، دونوں میں اس بات کی وضاحت ہے کہ قرب قیامت میں ایک آخری رسول آئیں گے جو پوری دنیا کے رسول ہوں گے اوران پر رسالت کا سلسلہ ختم ہو جائے گا، ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئیں گے۔توریت و انجیل کی اسی روایت کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل یہودی اور عیسائی آخری بنی کے انتظام میں تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد متعدد یہودی عالم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری بنی ہونے کی تصدیق بھی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان بھی آئے۔
لیکن یہودی علماء کی اکثریت مسلمانوں کی بغض و عداوت میں مبتلاء ہو گئی، اور انہیں اپنے ہاتھ سے اپنا اقتداد جاتا ہوا دیکھائی دینے لگا،یہودیوں کا ماننا تھا کہ جو بھی آخری بنی آئے گا وہ بنی اسرائیل یعنی کہ حضرت اسحاق علیہ السلام کے نسل سے ہوگا،لیکن ایسا نہیں ہوا۔جس کے بعد یہودیوں نے مسلمانوں کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی مذہبی کتاب میں تحریف کرنا شروع کردیا، اور کئی باطل نظریہ گڑھا، جس میں سے ایک حضرت موسی علیہ السلام کو آخری رسول قرار دیناہے، دوسرا لال گائے کی قربانی کے ذریعہ اپنے آپ کو پاک کرنا، اور ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا، دریائے دجلہ سے فراط تک کے علاقہ کو اپنے زیر اثر کرنا، ہے، موجودہ دور کے یہودی کا ماننا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی آخری بنی تھے، جب کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی آکر حضرت موسیٰ کی پیروی کریں گے اور یہودی کو نجات دلائیں گے۔یہودیوں کا ماننا ہے کہ مسلسل اللہ کی نا فرمانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو گئے ہیں، جن کی رضاء کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ لال گائے کی قربانی کی جائے، اس کے بعد اسے جلا کر اس کی راکھ کو پانی میں ملاکرغسل کیا جائے جس سے یہودی پاک ہو جائیں گے، اس کے بعد وہ دوبارہ ہییکل سلیمانی کی تعمیر کریں جو کہ ان کے عقیدہ کے مطابق مسجد اقصیٰ کے نیچے واقع ہے، ہیکل سلیمان کی تعمیر کرنے کے ساتھ ہی انہیں دریائے دجلہ سے فراط تک کے علاوہ کو قبضہ کرنا ہوگا، یہ تینوں عمل کرتے ہیں یہودی پاک ہو جائے گے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور ہو جائے گا، پھر پوری دنیا میں یہودی کا بول بالا ہو جائے گا۔
اس کے علاوہ موجودہ اسرائیلی سربراہ نیتن یاہوکی ملاقات ایک بہت ہی بڑے ربی یعنی کہ یہودی کے عالم سے ہوئی تھی، جس کے نتین یاہو کو بشارت دی تھی کہ وہ ایک دن اسرائیل کا وزیر اعظم بنے گا، اور اس کے ہاتھوں سے ہیکل سلیمانی کی تعمیر ہوگی، اور یہ نتین یاہو اسرائیل کا آخری وزیر اعظم ہوگا اس کے بعد پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام ظہور پزید ہوں گے، اور پوری دنیا میں یہودی کی حکومت قائم ہو جائے گی
قارئین کرام! یہی وہ یہودی کا باطل نظریہ ہے جس پر یہودی عمل پیرا ہیں، یہودی مذکورہ بالا تینوں چیزوں کو ہر حال میں پورا کریں گے چاہئے انہیں پورے دنیا کے انسانوں کو ختم کرنا ہی کیوں نہ ہو۔اسی طرح سے نتیں یاہو بھی ربی کی بشارت کی وجہ سے ہر حال میں مذکورہ تینوں کام کا فرائض انجام دیگا۔اب تک نتین یاہو کو یہی یقین کہ کہ وہ کسی نہ کسی اعتبار سے فاتح ہو جائے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس نظریہ کی حقیقت کیا ہے کیا واقعی بائبل میں بھی اسی طرح کی تحریر موجود ہے یا یہ کہ یہ تمام نظریات محض مفروضہ کی بنیاد پر ہی مبنی ہے؟، اس کے لیے جب ہم یہودی کی پرانی تاریخ کا جائز,ہ لیتے ہیں اور اسے پڑھتے ہیں تو ہمیں اندازہوتا ہے کہ 1500سالوں میں بائبل کی 66سے زیادہ نئی اڈیشن آئیں ہیں، ہر ایک اڈیشن دوسرے ایڈیشن سے بالکل مختلف رہی ہیں، ہر ایک اڈیشن میں کچھ نہ کچھ اضافہ اور ترمیم و تنسیخ کیا گیا ہے، جس کی بناء بائبل کی کون اڈیشن صحیح ہے اس کا اندازہ لگانا بہت ہی مشکل ہے۔مزید یہ کہ بائبل کے مرتب میں 40سے زائد مشہور نام سامنے آتے ہیں، جن میں ہر ایک مرتب کانظریہ دوسرے سے بالکل الگ اور زمانہ بھی الگ رہا ہے، جس کی بناء پر مرتب کے اعتبار سے بھی بائبل کے کسی بھی ایڈیشن کو کسیپر فوقیت نہیں دی جا سکتی۔مزید یہ کہ موجودہ دور میں جو بائبل عمومی طور پر دستیاب ہے، وہ 400ء کا ایڈیشن ہے، یعنی کہ اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے 1700سال بعد تحریر کی گئی ہے، اس اعتبار سے اس بائبل پر بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
15ویں صدی عسوی تک بائبل کا اڈیشن صرف اور صرف لاطینی زبان میں ہی دستیاب تھا، 15ویں صدی عسوی میں ولیم ٹنڈیل نامی عیسائی نے بائبل نیا (جسے عہدنامہ جدید کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے)، کی انگریزی زبان میں ترجمہ کیا، جس کے بعد پوری دنیا میں ہلچل میں گئی اور ولیم ٹنڈیل کو ترجمہ کرنے کے پاداش میں پھانسی بھی دیا گیا، واضح رہے کہ عہد نامہ جدید حضرت عیسی علیہ السلام سے متعلق ہے، جن کے ماننے والے عیسائی ہیں۔یہودیوں کا ان کا ترجمہ کرنا کسی بھی صورت میں پسند نہیں آیا اور لابنگ کر کے اسے پھانسی دلوایا گیا۔اس کے علاوہ متعدد ملکوں میں بائبل نیا کا انگریزی ترجمہ لے جاتے پر پابندی عائد کر دی گئی۔کل ملا کر یہ کہ بائبل کی تاریخی حقیقت کو دیکھتے ہوئے بائبل کے کسی بھی نسخے پر یقین کے ساتھ کوئی رائے قائم نہیں کی جاسکتی ہے۔مزید یہ کہ عیسائی مؤرخین کے مطابق بائبل پرانا (عہدنامہ قدیم) جو کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی وہ حضرت عیسی علیہ السلام کی بعثت سے 300سال قبل ہی مفقود ہو چکی تھی،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر موجودہ دور میں عہدنامہ قدیم کہاں سے آیا۔عیسائی مؤرخین کے دعوے کی تائید خود اسلامی نظریہ سے بھی ہوتا ہے، اسلامی نظریہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل جتنے بھی نبی یا رسول آئے وہ تمام کے ضرورت کے مطابق الگ الگ علاقہ کے لیے آئے، عین ممکن ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد کی اصل وجہ عہد نامہ پرانا کا ضائع ہو جانا ہی ہو۔
بائبل کے مطالعہ کرنے کا ایک اہم اور سب سے مستند ذریعہ اسلامی علوم ہے، جس میں حضرت موسی اور عیسیٰ علیہم السلام کے متعدد احوال و واقعات اور ان کی شریعت کے متعلق اہم معلومات فراہم کئے گئے ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذی شعور مخاطت سے سب سے زیادہ پیش پیش یہودی و عیسائی ہی رہے جو متعدد موقوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے اور وحی الہی کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جواب دیتے۔ آیات قرآنی اور احادیب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا جائزہ لینے سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہودی کے مذکورہ بالا نظریات کے بارے میں کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی سوال نہیں کیا گیا ہے، اگر مذکورہ بالا نظریہ یہودی مذہب کا حصہ ہوتا ہے تو کم از کم ایک مرتبہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ضرور اس کے بارے میں کوئی سوال کیا جاتا۔مزید یہ کہ زائنسٹ تحریک کی شروعات 1897ء میں ہوئی، اس سے قبل اس نظریہ کو ئی یہودی رائٹرس نے آشکارا نہیں کیا، اور نہ ہی کہی اس نظریہ کا نام و نشام موجود تھا، بلکہ ابھی بھی یہودی کی متعدد گروہ اس نظریہ کے خلاف ہے،
قارئین کرام!اگر آپ نے مذکورہ بالا عبارت پڑھا ہوگا تو آپ کو اندازہ ہو گیا ہے کہ اسرائیل فی الوقت باطل اور بے بنیاد مفروضہ بنا کر فلسطینی عوام کی نسل کشی کررہا ہے، جس نظریہ کا کوئی سر و پیر نہیں ہے۔اس لیے پوری دنیا کے عوام سے درخواست ہے کہ انسانیت کے نام پر اس بے بنیاد عقائد کے خلاف کھڑے ہو جائیں۔